Friday, February 7, 2014

Muslim young generation must boycott 14 February



برادران اسلام

اس وقت وطن عزیز مختلف قسم کے چیلینجز  اور  مشکلات سے گھرا ہوا ہے ، یہ چیلنجز سیاسی بھی ہیں اور سماجی اور  اخلاقی بھی، اور ان  چیلینجز کا افسوسناک پہلو یہ ھیکہ ان  کی شدت اور تباہ کار ی میں ہر روز اضافہ ہی ہو رہا ہے اور بالخصوص ملکی سطح  پر شرم وحیا کے دشمن اور عفت و عصمت کے  رہزن ایک شیطانی ایجنڈے کے تحت ملک عزیز کے ہر خاص و عام کو فحاشی و عریانیت کے سیلاب میں غرق کردینا چاہتے ہیں ۔  اس سلسلے میں پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا کے بدترین کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا، تمام تر صحافتی اصولوں اور ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کس طریقے سے انتہائی فحش پروگرام اور  اشتہارات کے ذریعے نسل نو کے اخلاق و کردار کے پرخچے اڑائے  جارہے ہیں اور یہ سب کچھ حادثاتی طور پر نہیں بلکہ ایک منصوبہ بند طور سے عالمی سطح پر انجام دیا جا رہا ہے اس میں بھی خصوصی طور سے مسلم سوسائٹی اور سماج   کو نشانہ بنایا جارہاہے۔

لیکن افسوس کا مقام ہے ۔۔۔۔۔!

بجائے اس کے کہ ہم ان شیطانی چالوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہم خود ہی اس قسم کے بد ترین حربوں کا شکار ہوتے جارہے ہیں  اور  "باطل" یہ کام اتنی چالاکی سے انجام دے رہا ہے کہ ہمیں ابھی اپنے ان دشمنوں  اور سماج کے قاتلین کا  ادراک تک نہیں ہو پا رہا ہے اس کے نتیجے میں آج ھمارے روز مرہ کے معمولات درہم برہم ہوگئے ہیں، سماج کا سب سے قیمتی عنصر "نوجوان " اخلاقی دیوالیئے  کا  شکار  ہو چکا ہے، فحاشی وعریانیت نے ھماری وضع قطع اور رہن سہن ، لباس اور پہناوا   اس حدت  تک تبدیل کردیا ہے کہ اب  ھمارا تشخص (Identity) خطرے میں پڑگيا ہے،  اور افسوس اس بات   کا ہے کہ یہ تمام کچھ"جدت پسندی" "کشادہ      ذہنی" اور  " عصر حاضر کا تقاضا " کے نام پر کیا جارہا ہے ۔۔۔۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا زمانے کے چلن اور فیشن سے متاثر ہو کر ہم اپنے دین کے تقاضوں اورمقدس تعلیمات کو  روند دیں گے ۔۔۔؟ کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ ہم جس اللہ رب الارباب کا دیا ہو ا  رزق کھاتے ہیں، جسکی دی ہوئی فضامیں ہم سانس لیتے ہیں  اور جس کی زمین پر ہم رہتے ہیں ۔۔۔ کیا اس کی تعلیمات اور احکامات کی دھجیاں بھی اڑائيں گے ؟ آخر اس سے بڑھ کر ناشکری اور  سرکشی کیا  ہوسکتی ہے ۔۔۔؟

کرنے کا   کام

مسلم معاشرے سے ہر قسم کی برائیوں کے خاتمے کی ذمہ داری ہر خاص  وعام پر قرآن کریم نے عائد کی ہے ،  اس  خیرامت کا  فریضہ  ہے کہ یہ برائی کے خاتمے اور بھلائی کے فروغ کے لیئے جی جان سے لگ جائے ، آج  کا  نوجوان طبقہ جو دین  سے بیزار ہے اسے  یہ بتایا جائے کہ یہ دنیا کی رنگینیاں جو آج آنکھوں کو خیرہ ،  اور  دماغوں کو ماؤف کرچکی ہے سب کچھ چھوڑ کر اس دنیا سے صرف " اعمال " لیکر خدا کے سامنے حاضر ہونا گا ۔۔۔ تو کیا ہم اس ہولناک دن کا  استقبال کرنے کو تیار ہیں ۔۔۔؟ کیا ہم نے خود کو قیامت کے دن ہونے والے سوالات کے لیے پورے طور سے تیارکرلیا ہے ؟

No comments:

Post a Comment