Monday, October 8, 2012

راہل گاندھی کا مشن کشمیر۔حقیقی اقدامات کی ضرورت ہے“کالم“ عابد انور



راہل گاندھی کا مشن کشمیر۔حقیقی اقدامات کی ضرورت ہے“کالم“ عابد انور
3
ضرورت اور مجبوری کیا چیز ہوتی ہے ۔اس کے تعلق سے سیاست داںسے زیادہ حساس یا بے حس کوئی نہیں ہوسکتا۔ ۹۰۔۱۹۸۹ میں جب وی پی سنگھ کی حکومت تھی اور بی جے پی کے حمایت واپس لے لینے کے بعد حکومت گرنے والی تھی اور اس سے قبل کسی وجہ سے دیوی لال کو وی پی سنگھ نائب وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف کرچکے تھے لیکن جیسے ہی بی جے پی نے حمایت واپس لی وی پی سنگھ کو دیوی لال کی یاد آئی اور انہوں نے دیوی لال کو جو دہلی سے باہر تھے خصوصی طیارہ بھیج کر دہلی بلوایا تھا یہ الگ بات ہے کہ ڈوبتے جہاز میں کوئی سوار نہیں ہونا چاہتا لہذا دیوی لال نے بھی اسی فارمولے پر عمل کیا۔اسی طرح کے کئی واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ یہاں تک کے عدم اعتماد کی تحریک کے دوران بہت سے راند درگاہ لیڈروں کو پارٹی اعلی کمان بہت پیار و محبت سے بلاتے ہیں تاکہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوسکیں۔ سیاسی لیڈروں اور پارٹیوں کی مطلب پرستی اور وقت پر گدھے کو باپ کہنے کا دور سیاسی میدان میں چلتا رہتا ہے ۔ اسی لئے ہندوستانی سیاست کبھی بااقدار سیاست نہیں بن سکی۔ اس میںقدریں کبھی پیدا ہی نہیں ہوسکیں ۔ قدروں کے ساتھ خلوص کا اشتراک ضروری ہوتا ہے جب کہ سیاست داں خلوص نام کے کسی جراثیم کو اپنے اندر پیدا ہی نہیں ہوتے ۔ اس معاملے اتنے سخت ہوتے ہیں کہ اس کے بارے میں کبھی سوچتے تک نہیں۔ کسی کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنا ہو یا خوشی کا، کسی حادثے میں جانا ہو یا کسی پروگرام میں وہ مکمل تخمینہ لگانے کے بعد ہی جاتے ہیں کہ اس سے ان کو کتنا فائدہ پہونچے گا۔ خصوصاً جب انتخابات کا وقت قریب آتا ہے تو اچانک پارٹی اور اس کے رہنماکے چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے اور ہر شخص سے گرمجوشی سے ملتاہے ہر دکھی انسان کے دکھ کو اپنا دکھ درد تصور کرتا ہے اور اس کے مداوا کرنے کی مکمل یقین دہانی کراتا ہے۔ ۔۲۰۱۴ کے عام انتخابات جس طرح قریب آرہے ہیں تمام پارٹیاں ایک دوسرے کو ادھیڑنے میں رات دن ایک کئے ہوئے ہیں۔ہر روز ایک نیا شگوفہ سامنے آرہاہے۔ اسی کے ساتھ سیاست دانوں کو اپنے ووٹروں کی فکر بھی ستانے لگی ہے اور اسی حساب سے اپنے پروگراموں کو ترتیب دے رہے ہیں۔ ہندوستان میں نوجوانوں کی آبادی ستر (۷۰) سے زیادہ ہے اور یہ نوجوانوں کا ملک ہے اس لئے ہر پارٹی اور سیاست داں نوجوانوں کو رجھانے کے لئے طرح طرح کے پانسے پھینکتے ہیں۔ نوجوان طبقہ جس پارٹی کو چاہے گا وہی پارٹی اقتدار میں آسکتی ہے۔ راہل گاندھی ملک کا دورہ کرتے رہتے ہیں اور نوجوانوں سے ملاقات کرکے ان کے مسائل سننے کی کوشش کرتے ہیں یہ الگ بات ہے آج تک وہ کسی مسئلے کا حل نہیں کراسکے۔ راہل گاندھی کا دورہ کشمیر کو اسی آئینے میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ عملی طور پر کشمیریوں اور کشمیری نوجوانوں کا کتنابھلا ہوتا ہے۔

راہل گاندھی ابھی دو دنوں کا کشمیر کا دورہ کیا ہے۔ جہاں انہوں نے تمام طبقوںسے ملاقات کی وہیں اپنی خاصی توجہ نوجوانوں پر مرکوز کی۔ نوجوانوں میں امیدوں کا احساس جگانے کیلئے تاجروں کا ایک وفد بھی لے گئے تھے جس میں ٹاٹا برلا، بجاج اور دیگر بڑی کمپنوں کے سربراہ اور نمائندے تھے۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ راہل گاندھی تاجروں کے ساتھ کشمیر کا دورہ کیا ہے ۔ کشمیر کے ساتھ آزادی کے بعد ہندوستان کا رویہ کبھی بھی اچھا نہیں رہا۔ اس کے ساتھ ایک کالونی جیسا سلوک کیا گیا۔ اقوام متحدہ اور دیگر پلیٹ فارموں پر ہندوستان یہ ضرور کہتا رہا ہے کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے لیکن ہندوستان نے کبھی بھی کشمیری کو اپنا اٹوٹ حصہ بنانے کی کوشش نہیں کی ۔ کشمیری جو چھری کا استعمال سبزی کاٹنے والے علاوہ نہیں جانتے تھے آخر بندوق اٹھانے پر مجبور کیوں ہوئے اس پر حکومت ہند نے کبھی غور نہیں کیا۔ حکومت شمال مشرق کے جنگجوؤں کے ساتھ گھٹنے ٹیک کر بات کرسکتی ہے اس کی ساری ناجائز مانگوں کو تسلیم کرسکتی ہے لیکن کشمیریوں کے جائز حقوق پر سوچنا بھی گوارہ نہیں ہے۔ کشمیر کے ساتھ نہ صرف حکومت نے بلکہ ہندوستانی عوام کا رویہ بھی منصفانہ نہیں رہا۔جو کشمیری تاجر اس کے ساتھ تجارت کرتے تھے اور پیسہ مانگنے پروہ اسے دہشت گردی کے الزام میں پھنسانے کی دھمکی دے کر بھگا دیتے تھے۔ دہلی میں تجارتی مال خریدنے کی غرض سے آئے کئی کشمیری نوجوانوں کو دہلی اسپیشل سیل نے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ حیرانی بات یہ ہے کہ آخر عدالت پولیس کے بیان کو من و عن کیوں تسلیم کرلیتی ہے۔ اس سے ٹھوس ثبوت کیوں نہیں مانگتی۔ کشمیر کو قبرستانوں کا شہر کس نے بنایا ہے۔ وہاں فوج کو خصوصی اختیارات کس نے دیا ہے؟۔ تمام چیزوں کو دیکھیں تو یہ سب کانگریسی دور حکومت میں ہی ہوا ہے۔ کشمیر میں کیسی جمہوریت ہے جہاں کرفیو کے دوران انتخابات ہوتے ہیں۔ لوگوں کو مسجد میں جانے سے روک دیا جاتا ہے۔ دنیا کا کوئی آئین کسی شخص کو اپنی مذہبی ذمہ داری ادا کرنے سے نہیں روکتا۔ جتنے اہم لیڈر ہیں ان میں سے بیشترکی زندگی جیل میں گزری ہے۔ یہ کشمیر کے ہندوستان کااٹوٹ حصہ ہونے کا کون سا پیمانہ ہے۔

کانگریس کے جنرل سکریٹری راہل گاندھی نے چار اکتوبر ۲۰۱۲ کو بڑے ہی جذباتی انداز میں کشمیر کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑتے ہوئے کہا، میں بھی ایک کشمیری ہی ہوں اور آپ لوگوں کے ساتھ مل کر آپ کا درد اور مشکلات کو حل کرنا چاہتا ہوں اس دوران راہل گاندھی سونمرگ میں جوجلا سرنگ کی تعمیر کی بنیاد بھی رکھی۔ یہ سرنگ لداخ کا رابطہ پورے سال ملک و دنیا سے برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوگی۔ راہل گاندھی نے دورہ کشمیر کے دوران بار بار اپنے آپ کو کشمیری ثابت کرنے کی کوشش کی اور اس کو ثابت کرنے کے لئے اپنے والد اور ڈاکٹر فاروق عبدللہ اور نانا جواہر لعل نہرو اور شیخ عبدااللہ کے تعلقات کا بھی ذکر کیا۔ ان تعلقات کی تفصیل میں جائے بغیر فی الحال اپنی تحریرکا دائرہ راہل گاندھی اور کشمیر تک محدود رکھنا چاہتا ہوں ورنہ بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی۔ اپنے اس دورے میں ہندوستانی صنعت کاروں کا ایک گروپ بھی لے کر گئے تھے۔ 1947 میں ملک کے آزاد ہونے کے بعد یہ پہلی بار ہے جب صنعت کاروں کا اتنا بڑا گروپ ریاست کے دورے پر ہے۔زبردست حفاظتی انتظامات کے درمیان کشمیر یونیورسٹی میں طلباء سے بھی ملے لیکن افسوسناک بات یہ تھی کہ جو ان سے سخت سوال کرسکتے تھے یا آئینہ دکھا سکتے تھے ان سب کو اس سے باہر رکھاگیا تھا ۔ انہی طلباء کو ان سے ملنے کی اجازت دی گئی تھی جو یا کانگریسی لیڈروں ، ورکروں اور نوکر شاہ کے بیٹے ، بھتیجے یا رشتہ دار تھے۔ ایک طالب علم نے کہا تھاکہ یہ ایک فوجی قلعہ ہے. لائبریری کے دروازے پر بھی پولیس تھی۔اس طرح سخت سیکورٹی اور منتخب طلباء سے ملاقات سے راہل گاندھی کشمیریوں کے دکھ درد کیسے جان سکتے ہیں۔ ان کی ان لوگوں سے ملاقات ہوئی ہے جنہوں نے کشمیر کے حالات کااور نہ ہی کشمیر میں پیش آنے والے مصائب کا سامنا کیا ہے۔ راہل کا مشن ۲۰۱۴ ہے اور کانگریس کے وزیر اعظم کے ممکنہ امیدوار بھی ہیں۔ اس طرح وہ کشمیر سے کنیا کماری تک کو فتح کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کشمیر سے کنیا کماری تک کے نوجوان راہل گاندھی کے خوابوں سے منسلک ہوتے ہیں تو یہ راہل گاندھی کیلئے فتح مشن ۲۰۱۴ میں اہم پیش رفت ہوگی۔ وہ کشمیر میں اپنی شبیہہ کو بہتر بنانا چاہتے ہیں اور یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے لئے پورا ملک یکساں ہے اور وہ تمام خطوں کے نوجوانوں کو قریب لانا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں وہ سرپنچوں کامعاملہ بھی حل کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ عدم تحفظ کی وجہ سے سیکڑوں پنج اور سرپنج اپنے عہدوں سے استعفی دے چکے ہیں ۔

کشمیر میں ہندوستانی حکومت کے مظالم کو دیکھیں تو رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ دنیا کاکوئی ملک یا ملک کی کوئی ایسی ریاست نہیں ہوگی جہاں اتنی بڑی تعداد میں بچوں کو جیل رکھا جاتا ہو۔ جس طرح کشمیر میں رکھا گیا ہے۔ کشمیر میں ہزاروں بچوں کو پولیس تھانوں میں طلبی اور عدالتوں میں حاضری کا سامنا ہے۔ ان بچوں کو۲۰۱۰ اور۲۰۱۱ کے دوران مظاہروں اور فورسز پر پتھراؤ کے الزام میں گرفتار کیا گیا ۔ بیس ہزار لڑکوں کو گرفتار کیا گیا جن میں سے بیشتر کمسن ہیں۔ انہیں ضمانت پر رہا تو کیا گیا ہے لیکن ان کی زندگی عذاب بن کر رہ گئی ہے کیوں کہ ہر جمعہ کو ان بچوں کو مقامی پولیس تھانوں میں طلب کیا جاتا ہے اور اگر ہڑتال کا دن ہو تو انہیں سارا دن تھانے میں ہی گزارنا پڑتا ہے کچھ بچے تو اسکول سے راست تھانے پہنچتے ہیں۔ حالانکہ حکومت سے حق معلومات کے قانون کے تحت گرفتاریوں اور عام معافی کے بارے میں جانکاری طلب کی تھی۔ اس کے جواب میں حکومت نے جو تحریری جواب دیا ہے اس کے مطابق جون۲۰۱۰ سے۲۰ مارچ ۲۰۱۲ تک کل پانچ ہزار پانچ سو تین افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے پانچ ہزار چار سو اڑسٹھ کو ضمانت پر رہا کیا جاچکا ہے۔ ریاست کے وزیر اعلی عمر عبداللہ نے بھی معافی کا اعلان کیا تھا جو متاثرین کا مذاق اڑانے سے کم نہیں ہے کیوں کہ اس کے باوجود ان لوگوں کو تھانے میں بچوں کے ساتھ حاضری دینی پڑتی ہے اور مقدمات اب تک ختم نہیں کئے گئے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں کمسن بچوں کی گرفتاری اور اس کے بعد تھانے میں حاضری کیا حکومت ان بچوں کو ریاست بیزار کرنے کی کوشش نہیں کر رہی ہے۔ کشمیر میں سرگرم انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ کمسن بچوں کو مختلف مقدمات میں الجھانا یا انہیں گرفتار کرنا ان میں انتقامی جذبات پیدا کرسکتا ہے۔
اس کے علاوہ کشمیر میں دس ہزار سے زائد نوجوان لاپتہ ہیں۔ ان نوجوانوں کو فوج نے حراست میں لیا تھا یا پولیس اٹھاکر لے گئی تھی یا دیگر مقامات سے نامعلوم افراد کے ذریعہ اٹھایا گیا تھا لیکن اتنے طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ان لوگوں کا کچھ پتہ نہیں چل سکا ہے کہ وہ لوگ کس حال میں زندہ یا ماردئے گئے۔ گزشتہ دنوں نامعلوم قبروں کے دریافت ہونے پر ہنگامہ کھڑا ہوا تھا ۔کشمیر میں چپے چپے پر فوج ہے اس لئے کسی مقدمے یا کیس کا آزادانہ تفتیش جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ لاپتہ نوجوانوں کی تعداد پر فکرمندی اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے امدادی تنظیم ’ہیومن رائٹس والنٹری فنڈز فار وِکٹِمز آف ٹارچر‘نے کشمیر میں پچھلے بیس سال کے دوران گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈِس اپیئرڈ پرسنز‘ (اے پی ڈی پی )۲۵ ہزار ڈالر کی امدد دی تھی۔ متاثرہ کنبوں کی بحالی کے لئے دس ہزار ڈالر کی امداد اس کے علاوہ تھی۔ تاکہ اے پی ڈی پی لاپتہ افراد کے بارے میں سروے کرسکے۔ پچھلی دو دہائیوں میں یہ پہلا موقع تھا کہ حراستی گمشدگیوں کے معاملہ میں اقوام متحدہ نے کسی مقامی گروپ کو اس طرح کوئی مالی امداد دی ہو۔کشمیری نوجوانوں کا ناطقہ بند کرنے کے لئے کشمیر میں سلواجوڈوم جیسے گروپ تشکیل کی گئی تھی۔ جیسے جیسے جموں کشمیر میں شدت پسند تشدد میں کمی ہو رہی ہے، ویسے ویسے گاؤں تحفظ کمیٹی (وی ڈی سی) کی طرف سے ہتھیاروں اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ اس کا قیام ۱۹۹۵ میں ہوا تھا اور بیشتر یہ کمیٹی وہاں قائم کی گئی تھی جہاں مسلمانوں کی آبادی بہت کم تھی اور غیر مسلموں کا غلبہ تھا۔ ریاست کے سابق پولیس سربراہ کلدیپ کھوڈا نے اس کی ابتدا کی تھی۔جموں میں تقریبا پانچ ہزار وی ڈی سی ہیں، جن میں تقریبا ۲۹ ہزار ورکرس ہیںجو زیادہ تر اقلیتی ہندو برادری کے ہیں۔انہیں حکومت کی جانب سے ہتھیار اور انہیں چلانے کی تربیت دی گئی ہیں۔ شدت پسندوں کے ساتھ لڑتے ہوئے اب تک تقریبا 150 وی ڈی سی کارکن مارے بھی جا چکے ہیں۔ وی ڈی سی کے قیام کے کچھ ہی دیر بعد ان کے ہتھیار اور اختیار کے غلط استعمال کی رپورٹ آنے لگی تھیں۔ وہ عام لوگوں کو لوٹنے ، ڈرانے، دھمکانے اور دیگر غیر قانونی کام زیادہ کرنے لگے ہیں۔
مسلمان جب کشمیر میں زیادتیوں کی بات کرتا ہے تو اسے ملک کا باغی تصور کیا جاتا ہے۔کشمیر کے حقائق کو اجاگر کرنے والوں کو طرح طرح سے پریشان کیا جاتا رہا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اور معروف قانون دان رام جیٹھ ملانی نے حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے ایک بہت کڑوی اور سچی بات کہی اگر یہ بات کسی مسلم لیڈر نے کہی ہوتی تو وہ اب تک جیل میں ہوتا۔انہوں نے دورہ کشمیر کے دوران کہا تھا کہ کشمیر میں لوگوں کے ساتھ نازی طرز کا ظلم ہورہا ہے اور ناانصافیوں کا سلسلہ جاری رہا تو لوگ انصاف کے حصول کے لیے ’متبادل راستے‘ تلاش کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ رام جیٹھ ملانی غیر سرکاری کشمیر کمیٹی کے تین رْکنی وفد کی سربراہی کر رہے تھے ۔ رام جیٹھ ملانی نے سابق مسلح رہنما عبدالعزیز ڈار عرف جنرل موسیٰ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ مذکورہ شخص کو بنا کسی عدالتی سماعت کے اٹھارہ سال تک جموں و کشمیر کی جیلوں میں قید رکھا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی صورتحال نازی جرمنی میں بھی دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔ جموں کشمیر میں غیر ضروری طور پر احتیاطی گرفتاری کے قوانین نافذ ہیں اور ان قوانین کا ناجائز استعمال کیا جا رہا ہے۔ ناانصافیوں، ظلم اور انتظامی غفلت کا یہی حال رہا تو حالات دوبارہ بگڑ سکتے ہیں۔کشمیرمیں قتل کرنا کوئی گناہ نہیں رہ گیا ہے۔ فوجی کسی بھی بے گناہ کو دہشت گرد بتاکر قتل کردیتے تھے تاکہ انہیں انعام و اکرام سے نوازا جائے۔ مئی ۲۰۱۰ میں ہندوستانی فوجیوں نے تین عام شہریوں کو ملازمت کا لالچ دے کر پہلے اغوا کیا اور پھر ایک جعلی تصادم میں ہلاک کردیا ۔ اس قتل کا مقصد یہ تھا کہ اس کارروائی کو دہشت گردانہ کارروائی دکھاکر انعام حاصل کیا جائے۔ صرف ۲۰۱۰ میں سو سے زائد کشمیریوں کو فوجی اور نیم فوجی دستوں نے بلاسبب فا ئرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی کشمیر میں بیواؤں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ ان میں سے بہت وہ خواتین شامل ہیں جنہیں یہ معلوم ہی نہیں ہے اس کا شوہر زندہ ہیں یا نہیں۔ کشمیر ایسی خواتین کو ’ہاف ویڈوکا نام دیا گیاہے۔ اس طرح کے حالات اور مظالم کی وجہ سے کشمیر کی خواتین نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہوگئی ہیں۔ بچے دہشت زدہ رہتے ہیں۔ مختلف فوٹیج اور ویڈیو کلپنگ میں فوجی اور نیم فوجی دستوں کے مظالم کا سامنے آتا ہے۔
راہل گاندھی اگر حقیقت اپنے آپ کو کشمیری کہتے ہیں یا کشمیریوں کا دکھ درد کا مداوا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ان تمام مسائل پر توجہ دینی ہوگی۔ وہ آسانی سے یہ کام کرسکتے ہیں۔ پہلا کام انہیں یہ کرنا ہوگا کہ فوجیوں کے اختیارات کو ختم کرکے انہیں جواب دہ بنانا ہوگا۔ اس کے بعد جتنے بھی کشمیر نوجوان کشمیر اور ملک کے دیگر جیلوں میں قید ہیں ان کا منصفانہ اور تصفیہ طلب اقدام کرنا ہوگا۔ بہت سے کشمیر نوجوان جو ملک دیگر حصوں کے جیلوں میں قید ہیں ان کے اقربا کو بہت سی پریشانیاں اٹھاکر ان سے ملنے یا پیروی کرنے آنا ہوتا ہے ۔ اس پریشانی کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو اس طرح کے حالات کا شکار ہوا ہو ہم تو صرف محسوس کرسکتے ہیں۔ دہشت گردی کے جھوٹے معاملات، کشمیریوں کا جائز حق دینا، ملازمت میں صحیح توازن اور کشمیر کے دیگر مسائل کا جب تک حل نہیں کریں گے اس وقت راہل گاندھی کا مشن کشمیر بے کار ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ یہ کام نہیں کرسکتے۔ ریاست اور مرکز میں ان کی حکومت ہے جو چاہئیں کرسکتے ہیں۔اگر اس سمت میں انہوں نے کوئی قدم اٹھایا تو نہ صرف یہ کشمیر کے نوجوان بلکہ سیکولر اقدار کے حامل ملک کے دیگر نوجوان ان سے خود بخود جڑ جائیں گے اور پھر انہیں مشن ۲۰۱۴ فتح کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

No comments:

Post a Comment