Saturday, October 20, 2012

Why they have need to make a law against of dowry?




اس میں شبہ نہیں کہ جہیز کی مو جودہ شکل ایک تباہ کُن رسم ہو کر رہ گئی ہے۔لڑکی کو ماں باپ اپنی محبت و شفقت میں رخصت ہوتے وقت جو کچھ دیتے ہیں وہ ایک امر مستحسن اور انسانی فطرت کاتقاضا ہے مگر غیروں کی دیکھا دیکھی میںاب مسلمانوں میں بھی جہیز کی رسم ایک ناگوار جبری مطالبہ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ جہیز کے ظالمانہ اورغیر انسانی مطالبوں کو پو را کر نے کے لئے آج کتنے گھرتباہ و بر باد ہو چکے ہیں ۔ لڑکی کی پیدا ئش جو بلا شُبہ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں خو ش بختی کی علامت ہے ،اُسے ہم نے اپنے ہاتھوں سے بد بختی میں بدل دیا ہے۔ اور بد قسمتی سے لاکھوں بہنیں بیٹیاں گھروں میں جہیز نہ ہو نے کی وجہ سے بو ڑھی ہوجاتی ہیں یا شادی نہ ہونے کی وجہ سے غلط روش اختیار کر تی ہے اور یا نفسیاتی مریض بن کر خود کشی کر لیتی ہے۔حقیقیت تو یہ ہے کہ لڑکی اگر اپنے والدین سے کوئی مطالبہ کرے تو کر سکتی ہے کیونکہ ماں باپ سے فر مائش اسکا پیدائشی حق ہے اگر چہ اسے بھی مطالبہ کر تے وقت اپنے والدین کی بساط و وسعت کا جائزہ لینا ضروری ہے، مگر یہ ہونے والے داماد یا ان کے گھر والوں کو کہاں سے حق پہنچتا ہے ،کہ لڑکی یا اس کے والدین سے کسی قسم کا سوال، تقاضا یا ڈیمانڈ کریں ، یہ تو یقیناً ایک طرح کی بھیک ہے ، جسے رسم و رواج کے نام پر قبول کیا جارہا ہے۔ اسلام دو ہی صورتوں میں بھیک مانگنے کی اجازت دیتا ہے یا تو سائل کا کوئی حق دوسرے سے متعلق ہو یا پھر سائل اتنا تنگدست ہوکہ اسکی گزر اوقات مشکل ہو اور سوال کے بغیر کوئی چارہ کار ہی نہ ہو،تو اسکو سوال کر نا جائز ہے۔ وہ بھی بقدر حا جت ، حا جت و ضرورت سے زیادہ تو اسے بھی مانگنا جائز نہیں۔ ہونے والے داماد کا ہونے والی بیوی یا ساس سسر پر کوئی لازمی حق تو ہو تا نہیںجسکا مطالبہ اس کے لئے جائز ہو۔ لہذاء اب دوسری صورت تنگدستی والی رہ جاتی ہے جب کہ سماج میں اسکی بھی کوئی گنجا ئش نہیں کہ تنگ دست داماد اپنی تنگدستی کا اظہار کر کے سسرال والوں سے کچھ مانگے۔ حالانکہ اگر واقعی تنگدست ہو تو بقدر ضرورت مانگ سکتا ہے۔ اور جب دونوں صورتیں نہیں تو یقینایہ سوال ممنوع وناجائز ہے کیونکہ بلا ضرورت مانگنے کی اسلام میں سختی سے مذمت کی گئی ہے۔حضرت ابو ہریرہ سے مر وی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا جو مال بڑہانے کے لئے سوال کر تا ہے وہ انگا رے کاسوال کر تا ہے ۔ دوسر ے مو قع پر آقائے نامدار فر ماتے ہیںکہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے ۔ اللہ تعالی نے مر دوں کی بالا دستی اور حا کمیت عطا فر مائی ہے ۔قُر آن مجید فُرقان حمید میں ارشاد ہے “الرجاء قوامون علی النسائ” مرد عورتوں پر حاکم ہے ،مگر افسوس آج کا مرد حاکم ہو کر اہنے مقام و منصب کے خلاف عورت کے سامنے سائل اور ذلیل ہوتا ہے۔اگر ہم قُر آن مجید کا مطالعہ کریں تو اس سے صا ف ظاہر ہے کہ قُر آن جہیز پر نہیں بلکہ مہر پر زیادہ زور دیتا ہے اور مہر عورت پر نہیں بلکہ مرد پر واجب ہے۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر 4 میں ار شاد خداوندی ہے اور عورتوں کو اُن کے مہر خو شی سے دے دیا کرو، ہاں وہ اگر خوشی سے اس میں سے کچھ تم کو چھوڑ دیں تو اُسے ذوق و شوق سے کھا لو۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر 25 ، سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 5، سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر50، سورۃ الممتحنہ کی آیت نمبر 10، سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 237، سورۃ انساء کی آیت نمبر 20 اور 21 میں خداوند لا عزال نے کھلے اور شفاف الفاظ میں مہر ادا کر نے کا حکم دیا ہے۔ یہ بھی کتنی بد قسمتی کی بات ہے کہ زمانہ قدیم سے عورت کوا چھا نہیں سمجھا جاتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ زمانہ جا ہلیت میں نبی تیمم اور قریش میں دُختر کشی یعنی بیٹیوں کا ما رنا جا ری تھا۔ بنی تیمم کے ایک شخص قیس بن عاصم نے ا پنی دس لڑ کیاں زندہ دفن کیں۔ بچیوں اور دُختر کشی کی اس ظالمانہ رسم سے عرب کا کوئی قبیلہ پاک نہ تھا۔اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے معا شرے میں لوگ بہن اور بیٹیوں کو قتل تو نہیں کرتے مگر جہیز نہ ملنے کی وجہ سے زیادہ تر بیٹیوں اور بچیوں کے بالوں میں چاندی لگ جاتی ہے۔اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نفسیاتی مریض بن جاتی ہے۔ بھارت کے ایک مشہور محقق فالاش کمار اپنے ایک مقالے Grils are
Considered a burden in sections of India Society
میں کہتے ہیں کہ گذشتہ دس سالوں میں 10 ملین بچیاں یاتو پیدائش سے پہلے یا پیدائش کے فو راً بعد والدین ہلاک کر تے ہیں۔ ۔تامل ناڈو اور را جستھان میں تو بڑے بڑے بل بو رڈ لگے ہوتے ہیں جس پر لکھا ہوتا ہے Invest Rs. 500 and Save Rs. 500000/- کہ الٹرا ساؤ نڈ پر500 روپے خرچ کر کے 5لاکھ بچاؤ،جو کہ عام طو ر پر بچی کی پر ورش اور جہیز پر خرچ ہو تی ہے۔ بد قسمتی سے ہندوانہ کی زیر اثر مسلمان اور بالخصوص پاکستانی معاشرے میں بچی کو اچھا نہیں سمجھا جاتا ۔ مگر اسلامی تعلیمات ہماری سوچ اور فکر کے بر عکس ہے۔سورۃ الا نعام کی آیت نمبر 151 اور سورۃ بنی اسرائیل کے آیت نمبر 31 میں ارشاد خداوندی ہے اپنی اولاد کو مُفلسی کے خوف سے قتل نہ کرنا کیونکہ انکو اور تم کو ہم ہی رزق دیتے ہیں۔ کچھ شق نہیں کہ اسکا ما ر ڈالنا برا سخت گناہ ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم ار شاد فر ماتے ہیں جو دو بچیوں کی صحیح طریقے سے تر بیت کرے گا قیامت کے دن میرے انتہائی قریب ہو گا۔اسلام کی بنیادی شرائط میں مہر شرط ہے مگر جہیز شرط نہیں۔ مگر بد قسمتی سے ہم مہر کی جگہ جہیز پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے حضرت فا طمہ الزہراء کے شادی اور مہر کے بارے میں پو چھا کہ تمھارے پاس مہر دینے کے لئے کیا ہے؟۔ تو حضرت علی کرم اللہ وجہہہ نے عرض کیا میرے پاس کیا رکھا ہے صرف ایک تلوار، ایک زرہ اور ایک اونٹ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا تلوار اور اونٹ تو کام کی چیز ہے کیونکہ اسکے بغیر بھی کام چل جاتا ہے اسلئے تم زرہ فروخت کرو ۔ حضرت عثمان نے چار سو اسی درہم پر یہ زرہ خرید لیا ،اور پھر ہد یتہ حضرت علی کو واپس دے دیا۔ حضرت علی یہ رقم لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حا ضر ہوئے اور سارا واقعہ عرض کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ دوتہائی کی خو شبو وغیرہ پر خرچ کر و اور ایک تہائی سامان شادی اور دیگر اشیاء خانہ داری پر خرچ کرو۔آج کل ہم جو جہیز پر خرچ کر تے ہیں وہ قطعا غیر اسلامی اور غیر شر عی ہے کیونکہ اسلام فضول خرچی اور اسراف کی صور ت اجازت نہیں دیتا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فا طمہ الزہراء کو جہیز میں جو سامان دیا تھا اُ ن میں چمڑے کا گدہ جس میں کھجور کے پتے بھرے ہوئے تھے ، ایک درمیانہ سائز کی چا در، بانوں کی ایک چارپائی، چمڑے کی ایک چھا گل، چمڑے کی ایک مشک اور مٹی کے دو گھڑے، ایک چکی ، چھوٹے دو بقرئی بازو بند۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ بہترین شادی وہ ہے جو آسان ترین ہو۔ شیخ محمد بن ابراہیم نے ایک طویل فتوی جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ جہیز کے سلسلے میں لوگ دوڑے چلے جاتے ہیںاور اسی آڑ میں فضول خرچی شروع کر تے ہیں جسکی اسلام کسی صورت اجازت نہیں دیتا۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں چاہئے کہ ہم فضول رسموں کو زیادہ فروع نہ دیں، سادگی اختیار کریں اور حکومت کو بھی چاہئے کہ اس کے لئے مناسب قانون سازی کرے اور جو لوگ ایک حد سے زیادہ جہیز دیتے ہیں اُنکے خلاف اسراف اور فضول خر چی کے زمرے میں مقدمہ درج کیا جائے۔ علاوہ ازیں تمام مذہبی، سیاسی پا رٹیوں، سوشل ولیفیر آر گنا ئزیشن کو چاہئے کہ وہ ایک ایسا طریقہ کار بنائیں تاکہ ہر مذہبی اور سیاسی پا رٹی کے غریب کارکن بغیر کسی جہیز کے آپس میں شادی کریں۔ جیساکہ جماعت اسلامی اور تحریک منہاج القُر آن نے یہی طریقہ اختیار کیا ہوا ہے۔ بقول شاعر:

اے قوم کے غیور جوانو۔ اُٹھو چلیں اس رسم کو سماج سے نا پید ہم کریں
بہنوں کو خود کشی سے بچانے کے واسطے۔ اپنے معاشرے کو بنانے کے واسطے
آسان شادیوں کو بناے کے واسطے۔۔ نام و نشان جہیز کا مٹانے کے واسطے
خود اپنے دل سے عہد لے ہر ایک جوان۔۔ وہ عہد جس کا قول و عمل بھی ہو ترجمان
اپنے ہی با زو پہ بھرو سہ کریں گے ہم۔۔ ہر گز نہ اپنے آپ کا سودا کریں گے

1 comment: